ماسکو کی مسلمان طالبات نے مذہب، ہم جماعتوں کے ساتھ تعلق اور اس بارے میں کہ سر پر رومال باندھنا کب ضروری ہو جاتا ہے، اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
ان مسلمان لڑکیوں نے جو حصول تعلیم کی غرض سے ماسکو آتی ہیں اپنی کہانیاں سنائی ہیں اور رائے دی ہے کہ اس عمر اور آج کے دور میں نوجوان مسلمان ہونا کیسا ہے۔
ماسکو میں تاتار والدین کے ہاں پیدا ہونے والی اٹھارہ سالہ لطیفہ کا کہنا ہے کہ انہیں ماسکو میں رہنا اور تعلیم حاصل کرنا اچھا لگتا ہے کیونکہ وہ ایک باوقار یونیورسٹی میں عربی تعلیمات کا اعلٰی کورس کر رہی ہیں۔ ان کے پس منظر نے ان کو اپنے مضمون میں بھرپور پیشرفت کرنے میں مدد دی ہے۔
دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے توسط سے دنیا میں فروغ پاتی ہوئی دہشت گردی کے بارے میں لطیفہ کہتی ہیں، "مجھے تو کبھی ایسا کوئی نہیں ملا جس نے مجھے داعش میں شامل ہونے پر قائل کرنے کی کوشش کی ہو۔ پھر میں اور میرے کنبے والے جانتے ہیں کہ دہشت گردوں کے ساتھ شامل ہونے والے لوگ تنہائی کا شکار ہوتے ہیں جو کہیں اپنی جگہ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ کسی ایسے نظریے کے قائل ہو جاتے ہیں جو ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے چنانچہ ان لوگوں کے ساتھ جڑ جاتے ہیں"۔
داغستان سے تعلق رکھنے والی اٹھارہ سالہ فریدہ صرف تین سال پیشتر ماسکو منتقل ہوئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شروع میں ان کے اردگرد لوگ حیران ہوتے تھے کہ وہ سر پر حجاب کیوں نہیں اوڑھتی اور جینز قمیص پہنتی ہے۔
"میں سمجھ نہیں سکتی کہ لوگ ان دہشت گردوں کے لباس پر اتنی توجہ کیوں دیتے ہیں۔ اگر کوئی جینز میں ملبوس شخص قتل کرتا ہے تو ہم جینز پہننے والے ہر شخص کو مختلف طرح سے دیکھنا شروع نہیں کر دیں گے۔ یہ بات حجاب کے بارے میں کیوں ہے"۔
پھر وہ اپنے والدین کے بارے میں بتاتی ہیں کہ داغستان میں بسنے والے اکثر تعلیم یافتہ لوگوں کی طرح انہوں نے بھی اسے اپنی توجہ تعلیم پر مرکوز رکھنے کی اور مذہب میں گہرے طور پر ملوّث نہ ہونے کی تلقین کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ داغستان میں رہنے والی لڑکیاں مذہبی جنونی نہیں بن سکتیں کیونکہ وہ والدین کی رہنمائی میں ہوتی ہیں، بنیاد پرستی تب غلبہ پاتی ہے جب لوگ اپنے پیاروں سے دور ہو جاتے ہیں اور غلط لوگوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔
فریدہ نے بتایا کہ دو سال پہلے جب داغستان کو خود کش بمباروں سے خطرہ تھا تو لوگ حجاب پہنے والیوں سے جو خود کو سیاہ رنگ کے کپڑوں میں مستور رکھتی تھیں، خائف رہتے تھے۔
"اگر کوئی بس، بس سٹاپ کے نزدیک پہنچتی تھی اور بس میں سوار لوگوں کو بس سے باہر سیاہ کپڑوں میں ملبوس کوئی عورت دکھائی دے جاتی تھی تو وہ ڈرائیور سے کہتے تھے کہ بس مت روکے کیونکہ وہ خودکش بمباروں سے ڈرتے تھے"۔
ماسکو میں مقیم میڈیکل کی طالبہ عائشہ کے مطابق انہیں یونیورسٹی میں سر پر رومال باندھتے ہوئے خجالت محسوس ہوتی ہے کیونکہ وہ ان یکساں قسم کے خیالات سے خائف ہیں جو ان مسلمان لڑکیوں سے متعلق ہیں جو اپنا سر ڈھانپتی ہیں۔
وہ اپنی کلاس میں اوّل مقام پر ہیں اور اگلے ہفتے ہاؤس جاب کے لیے چین جا رہی ہیں۔ لیکن وہ پریشان ہیں کہ اگر وہ حجاب اوڑھنا شروع کر دیں گی تو لوگ سمجھیں گے کہ وہ بھی "دولت اسلامیہ" سے وابستہ لوگوں کی مانند جنونی ہیں۔
"میں سمجھتی ہوں کہ اگر آپ اچھے کام کریں گے تو لوگ آپ کی تعظیم کریں گے۔ ماسکو میں میرے دوست مجھے جانتے ہیں اور میں یہاں خود کو محفوظ خیال کرتی ہوں۔ مگر میں بیاہ کرنے کی خواہاں ہوں تاکہ جب میں مستقل طور پر حجاب اوڑھنے کا فیصلہ کر لوں تو کوئی میری حفاظت کرنے والا ہو۔ حجاب اوڑھنا ہمارے مذہب کا حصہ ہے اور اسے اوڑھ کر کوئی جنونی نہیں ہو جاتا۔ میں حجاب پہنتے ہوئے بھی اپنا کیریر جاری رکھوں گی اور اپنے مقاصد حاصل کروں گی"۔
عائشہ اپنی والدہ اور بھائی کے ساتھ ماسکو میں رہتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ ان کے لیے ان کا کنبہ اہم ترین ہے۔ "ہمارے لیے کنبہ سب سے بڑی ترجیح ہے۔ وہ لوگ جو "داعش" میں شامل ہوتے ہیں وہ اسلام کو اور ان اقدار کو نہیں سمجھتے جو اسلام انسانوں اور اپنے کنبے سے پیار کرنے سے متعلق سکھاتا ہے"۔
تحریر کے بارے میں اپنی رائے بھیجیں