چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی میں مردوں اور عورتوں کے لیے ساحل جدا کر دیا گیا ہے۔
یہ ساحل ذخیرہ آب پر کھولا گیا ہے۔ ان دو علیحدہ ساحلوں کے درمیان دو کلو میٹر کا فرق ہے اور دو میٹر بلند باڑ جو عورتوں والے حصے کو متجسس نگاہوں سے اچھی طرح محفوظ رکھتی ہے۔ البتہ ان دونوں ساحلوں میں مشترک چیز اس کا نام "لاگون" ہے۔
اس سیاحتی مرکز کے لیے سرمایہ کاری کا منصوبہ چیچنیا کے بڑے منصوبوں میں سے ایک ہے۔ اس کو بنائے جانے کا کام تین سال پہلے شروع کیا گیا تھا اور تقریباً دو برس لگے ہیں ذخیرہ آب کی تہہ کو کائی اور کوڑے سے پاک کرنے میں۔ ذخیرہ آب، جسے لوگ "گروزنی کا سمندر" کہتے ہیں، کے ساحل پر کچھ ہوٹل، پانی کے اوپر ریستوران، کھیلوں اور صحت کا مرکز اور ڈولفن گھر تعمیر کیے جانے کا منصوبہ ہے۔ اہم ترین قابل توجہ مقام پانی میں رنگدار اور موسیقی دینے والے فوّارے ہیں۔
معاشی بحران اس منصوبے کی تکمیل پر اثر انداز نہیں ہوا، تعمیرات زور شور سے جاری ہیں۔
ساحل کھولے جانے کی سب سے زیادہ خوشی خواتین کو ہے جن کے لیے امکان پیدا ہوا ہے کہ وہ جب چاہیں سکون کے ساتھ پانی میں اتر سکیں۔ مستزاد یہ کہ گذشتہ دنوں سے گروزنی میں درجہ حرارت چالیس کے قریب رہا ہے۔
مردوں کو تو یہ سہولت ویسے بھی حاصل تھی۔ پیراکی کا سیزن شروع ہوتے ہی، خاص طور پر گرم دنوں میں متنوع دریاؤں، جھیلوں اور تالابوں کے کناروں پر چیچنیا کی مرد آبادی لطف لیتی ہے۔ قفقاز کی شرمیلی خواتین ان مقامات سے دور رہتی ہیں۔
پیراکی کے نئے مرکز پر تاحتٰی میاں بیوی بھی اکٹھے نہیں تیر سکیں گے۔ یہ بات گروزنی کی باسی پچیس سالہ مادینا کے لیے کوئی خاص پریشان کن نہیں ہے۔ "انجام کار میں سکون سے نہا سکوں گی۔ بدن سینک سکوں گی اور اس پورے علاقے میں آزادی سے گھوم پھر سکوں گی۔ اب تک یا تو غسل خانوں میں نہانا پڑتا تھا یا بند جگہوں پر"، انہوں نے کہا۔
مادینا کے مطابق عورتوں کے لیے پیراکی کا ملبوس بازار میں موجود ہے۔ یہ تیزی سے سوکھنے والے کپڑے سے بنا پاجامہ کرتا ہے لیکن سبھی عورتیں اسے خرید نہیں سکتیں کیونکہ اس کی قیمت تین سے پانچ ہزار روبل ہے یعنی پچاس سے اسی ڈالر تک جبکہ عام ملبوس پیراکی کوئی بھی خاتون خریدنے کی استطاعت رکھتی ہے۔ اب مدینہ یہ باقاعدگی سے خریدنا چاہیں گی۔
ڈوبنے والیوں کو ڈوبنے سے بچانے والی بھی عورتیں ہی ہونگی جنہیں اس کام کی خصوصی تربیت دی جا رہی ہے، انتظامیہ کے نمائندے نے بتایا۔ مردوں کے لیے ایک تخصیص ہوگی کہ اگر ان کی عمر بارہ سال سے زیادہ نہیں ہے تو وہ بھی خواتین کے ساحل پر جا سکیں گے۔ اس سے بڑی عمروالے باڑ کے پیچھے ہی رہ کر چوکیداری کریں گے۔
اس ساحل کا رقبہ ڈھائی ہزار مکعب میٹر ہے۔ ریت اور سیپیاں اصلی ہیں یعنی سمندر کی جو بحیرہ خزر کے ساحل سے لائی گئی ہیں۔ ساحل کی باڑ تک سمندری سٹائل میں مزین کی گئی ہے۔ اس پر سمندر، بگلوں اور بحری جہازوں کے عکس ہیں۔
وہاں استراحت کی تمام سہولتیں ہیں: لیٹنے کے تخت، چھتر، حمام، چھوٹا سا ریستوران، خوشنما بینچ جو مشرقی انداز میں سجائے گئے ہیں، ساحل پر آرام کرنے والوں کے لیے دکان اور طبی سہولت۔
تحریر کے بارے میں اپنی رائے بھیجیں